آج کل کے دور میں تعلیم‘ علاج‘ معالجہ‘ گھر کی تعمیر وغیرہ سب کے سب انتہائی گراں ہوگئی ہیں اور جب تک ہم بچت کرنے کا فن نہیں سیکھیں گے اوسط درمیانے طبقے کے لوگوں کو ان اخراجات کا بار اٹھانا مشکل ہوتا چلا جائے گا
فرید اداس اور غمگین تھا کیونکہ اسے ملازمت سے جواب دے دیا گیا تھا۔ بہ حیثیت ایک سافٹ ویئر انجینئر اسے مستقبل بے حد تابناک دکھائی دے رہا تھا اور اتنی کم عمری میں تنخواہ کا موٹا لفافہ ملنے پر اس کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اسے پیسوں کو خرچ کرنے میں بڑا مزہ آتا تھا اور اب اچانک جب اسے بیروزگار ہونا پڑگیا تو وہ پریشان ہوگیا۔ معاشی صورتحال کے پیش نظر فوری طور پر دوسری ملازمت ملنا مشکل تھی اور پھر اس بات کی بھی کوئی یقینی ضمانت نہیں تھی کہ آئندہ ملازمت میں اسے اتنی ہی زیادہ تنخواہ ملے گی جتنی کہ پہلی میں ملتی تھی۔
اس کی بیوی نازش نے اس کی اداسی اور شکستہ دلی بھانپ لی۔ اس نے فرید سے کہا کہ ہر افتاد میں کوئی نہ کوئی موقع ضرور پوشیدہ ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اپنی مہارت کو آزمانے کی کوشش کرسکتا ہے اور سافٹ ویئر میں اپنے ذاتی کاروبار کا آغاز کرسکتا ہے لیکن فرید کو اس بات کی فکر تھی کہ کاروبار کے جمنے تک وہ مالی ضروریات کس طرح پوری کرے گا اور جب تک کاروبار میں پیسے کی روانی نہیں آئے گی وہ اپنے اخراجات کس ذریعے سے پورے کرسکے گا تب نازش نے اسے بتایا کہ وہ اسے گھریلو اخراجات کیلئے جو بھی رقم دیا کرتا تھا وہ اس میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرتی رہتی تھی اور اس طرح اس کے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہوچکی ہے اور وہ اس مشکل دور سے بھی آسانی سے گزرسکتے ہیں۔
نازش کی بچت کی عادت اس آڑے موقع پر ان کے کام آگئی اور وہ اس کڑے امتحان سے اطمینان سے گزرنے میں کامیاب ہوگئے حتیٰ کہ فرید کا کاروبار جم گیا اور وہ مالی مشکلات کے دور سے نکل آیا۔ پس اس طرح نازش نے جو رقم پس انداز کی تھی وہ اس نازک دور میں ان کے کام آگئی۔
نازش کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جو اس کہاوت پر یقین رکھتی ہیں کہ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔ پس دانشمندی سے پس انداز کی ہوئی تھوڑی تھوڑی بچتیں دھیرے دھیرے ایک بڑی قم بن جاتی ہیں۔ اکثر ہم اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ خوش قسمتی کی دیوی ہمارے دروازے پر دستک دے اور اس خوش فہمی کی بنا پر ہم بچت کے چھوٹے چھوٹے مواقع ہاتھ سے گنوا دیتے ہیں اور رقم پس انداز کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں کوئی بچت نہیں ہوپاتی۔
ہم پھر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قیمتوں میں روزمرہ اضافے کو الزام دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی کم آمدنی کا رونا روتے ہیں۔ ایک دانشمند خاتون خانہ کی حیثیت سے آپ کو لازمی پتہ ہونا چاہیے کہ کسی مشکل گھڑی یا اچانک صورتحال کیلئے رقم کی کس طرح سے بچت کرنی چاہیے۔ آج کل کے دور میں تعلیم‘ علاج‘ معالجہ‘ گھر کی تعمیر وغیرہ سب کے سب انتہائی گراں ہوگئی ہیں اور جب تک ہم بچت کرنے کا فن نہیں سیکھیں گے اوسط درمیانے طبقے کے لوگوں کو ان اخراجات کا بار اٹھانا مشکل ہوتا چلا جائے گا۔
ذیل میں ہم چند گائیڈ لائنز اور ٹپس پیش کررہے ہیں تاکہ آپ کے اندر بچت کی عادت کی خواہش پیدا ہوجائے۔ آپ ان مشوروں پر عمل کرنے کے علاوہ بچت کے اپنے طریقے بھی وضع کرسکتی ہیں۔
آپ تھوڑی سی مقدار کا احساس کیے بغیر یا غذائیت یا ذائقے کو خطرے میں ڈالے بغیر اپنے کچن کے بجٹ میں کسی حد تک کمی کرسکتی ہیں۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔
اپنے تیل کے استعمال میں کمی کردیں۔ آپ کھانے پکانے میں تیل کی جو مقدار استعمال کرتی ہیں اسے اچھے طریقے سے گھٹا سکتی ہیں۔ اگرآپ کھانے کے 2 چمچے تیل ڈالتی ہیں تو اس کی مقدار گھٹا کر ڈیڑھ چمچہ کرلیں۔ گو اس سے کھانے کے ذائقے پر کوئی اثر نہیں پڑےگا مگر اس طرح آپ ماہانہ تیل کے استعمال میں مناسب بچت کرلیںگی۔ فرض کریں کہ آپ کی تیل کے استعمال کی اوسط مقدار 5 لیٹر ہے اور آپ اسے گھٹا کر چار لیٹر تک لے آئی ہیں تو پھر اس رقم کو الگ پس انداز کردیں جو ایک لیٹر تیل کی قیمت بنتی ہے۔
٭ صرف موسمی سبزیاں اور پھل خریدیں۔ وہ غیرموسمی پھلوں اور سبزیوں کے مقابلے میں کم قیمت ہونے کے علاوہ ذائقے اور غذائیت کے لحاظ سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔ سردیوں میں جی بھر کر مٹر کھائیں کیونکہ اس سیزن میں ان کی قیمت بہت کم ہوتی ہے۔
اسی طرح گرمیوں میں خوب آم کھائیں اور صرف یہ ناسوچیں کہ تنہا دسہری یا انور وٹول ہی کھانے سے آپ کی آم کھانے کی تسکین ہوجائے گی۔ ان کے علاوہ آموں کی دیگر اقسام بھی کھائیں جو میٹھے‘ ذائقہ دار لیکن کم قیمت ہوتے ہیں اور ان ورائٹیز خریدنے سے قیمت میں بڑی حد تک کمی آجاتی ہے۔
ہر اس پھل اور سبزی کو کھائیں جب وہ کثرت سے اور وافر مقدار میں ہو اور ان کے دام بھی خاصے کم ہوں۔
اگر آپ کے پاس وقت اور ذہانت ہے تو اچار‘ سوس اور جام بازار سے خریدنے کی بجائے انہیں خود گھر پر تیار کریں۔ اس سے آپ کو اپنے کچن کے اخراجات میں ایک خاصی بڑی بچت کرنے میں مدد ملے گی۔
کبھی بھی بچے ہوئے کھانے کو ضائع مت ہونے دیں ان کو کسی نئے انداز میں استعمال کرکے مختلف اور دلچسپ شے بنادیں۔
اکثر جب ہم شاپنگ کرنے جاتے ہیں تو ہم ضرورت سے زیادہ صرف کرنے کی دھن میں رہتے ہیں۔ اکثر ہم ایسی مدوں پیسہ خرچ کربیٹھتے ہیں کہ جن میں اشیاءکی خریداری غیرضروری اور قابل گریز ہوتی ہے۔ پس آپ کو شاپنگ کیلئے پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ آپ ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کر پائیں بلکہ اپنی شاپنگ میں بچت بھی کرلیں۔
ایسے بہت سے طریقے ہیں جن میں آپ اپنے اخراجات میں کمی کرسکتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی بچتوں سے آپ آخر میں اپنے ماہانہ بجٹ کو بڑی حد تک گھٹانے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
جس لمحے آپ کسی کمرے سے نکلیں پنکھے اور روشنیاں بند کردیں۔ اس طرح آپ اپنے بجلی کے بل میں خاطر خواہ کمی کرسکتی ہیں۔ بجلی کو صرف اسی وقت استعمال میں لائیں جب ان کی ضرورت ہو۔
اپنے نلکوں کو بے مقصد کھلا نہ چھوڑیں تاکہ پانی ضائع نہ ہو۔ گاڑیوں کا استعمال کم سے کم کریں تاکہ پٹرول کے اخراجات گھٹ جائیں۔ جہاں کہیں آپ چل کر جاسکتے ہوں وہاں نہ گاڑی میں سوار کر جائیں اور نہ ہی ڈرائیو کرکے جائیں۔
اگر آپ کے بچے بڑھتی ہوئی عمروں میں ہیں تو ان کیلئے بہت زیادہ مہنگے ملبوسات نہ خریدیں کیونکہ چند ماہ ہی کے دوران وہ ملبوسات انہیں چھوٹے پڑجائیں گے اور آپ کو ان کے ملبوسات کیلئے ایک بار پھر سے بڑی رقم خرچ کرنا پڑےگی۔
توپھر کیوں نہ آج ہی سے بچت کی ان عادتوں کو اپنالیا جائے!!!
٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں